ایم ڈی کیٹ اور سٹوڈنٹس کا احتجاج

 


کورونا کی وجہ سے جہاں ایک طرف دنیا بھر کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی وہیں دوسری جانب سب نے دیکھا کہ وبا کی وجہ سے تعلیمی نظام بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا، زیادہ متاثرہ ممالک کی جانب سے ابتدائی طور پر تو تعلیمی اداروں کو بند کرکے سٹوڈنٹس کو چھٹیاں دیکر فلاح جانی گئی لیکن بعد میں جب معاملہ ختم نہ ہوتا دکھائی دیا تو آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم کے سفر کو جاری رکھنے کی کوشش کی گئی، فائیو جی ٹیکنالوجی کے اس دور میں ٹیکنالوجی کی طاقت سے لیس اہم ممالک میں تو یہ ماڈل کامیاب رہا لیکن پاکستان جیسے کئی ترقی پذیر ممالک میں یہ ماڈل پوری طرح شائد کامیاب نہ ہو سکا، اس کے اثرات تب دیکھے گئے جب آن لائن کلاسز کے بعد سٹوڈنٹس سے فزیکل امتحانات لینے کا سلسلہ شروع ہوا تو بچے بجائے امتحان دینے کے سڑکوں پر حکومت مخالف تحریکیں شروع کرتے نظر آئے، یہ ہی معاملہ مستقبل میں ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھنے والے میڈیکل سٹوڈنٹس کے ساتھ بھی پیش آئے کہ جب وہ پی ایم ڈی سی سے پی ایم سی بننے والے ریگولیٹری ادارے کے نئے ایم ڈی کیٹ کا آن لائن ٹیسٹ دینے بیٹھے تو کسی امتحانی مرکز میں وائی بند ہونے کی شکایات کی گئیں تو کہیں بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا، اسی طرح ہزاروں بچوں کی جانب سے ٹیسٹ میں سوالات سلیبس سے ہٹ کر آنے کے شکوے بھی کیے جاتے رہے، خیر ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سٹوڈنٹس کا نتیجہ انتہائی غیر متوقع رہا، میٹرک میں ٹاپ کرنے والا ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ پاس تک نہ کر سکا اور میٹرک میں ایوریج مارکس لینے والا ایم ڈی کیٹ کا ٹاپر بن گیا، خواب بکھرتے دیکھ کر سٹوڈنٹس سے رہا نہ گیا اور وہ اپنے والدین سمیت احتجاج کرنے پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر پہنچ گئے، سٹوڈنٹس نے جب نعرے بازی کو بلند کیا تو نائب صدر پی ایم سی علی رضا مذاکرات کے لیے 5 رکنی وفد کو اندر بلا لیا، ایس پی صدر نوشیروان چانڈیو کی موجودگی میں ہونے والے 4 گھنٹے طویل مذاکرات آخر کار ناکام ہوئے اور طلبہ وفد نے باہر آتے ہی گھر واپس نہ جانے اور دھرنا دینے کا اعلان کر دیا، پوری رات سٹوڈنٹس نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر گزاری اور اگلے دن دوبارہ ادارے کا گھیراؤ کرکے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوسکا، سٹوڈنٹس وقتی طور پر تو وہاں سے غائب ہوئے لیکن دو روز بعد ڈبل تعداد میں پہنچ گئے ڈی چوک جہاں احتجاجی دھرنوں کی روایت کچھ سال پہلے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ڈال چکے اور لوگوں کو دھرنے کے لیے آئیڈیل جگہ کا انتخاب بھی کر کے دے چکے، اب معاملہ یوں ہوا کہ ڈی چوک ہے اور میڈیکل سٹوڈنٹس، ان کے والدین اور بڑی تعداد میں میڈیا کے دوست، نعرے بازی جاری ہے اور سٹوڈنٹس والدین سمیت اپنے دکھ سناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر علی رضا کہتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے تمام سٹوڈنٹس نالائق سٹوڈنٹس ہیں، یہ رٹے کے سسٹم کے حامی ہیں، علی رضا کا دعوی یے کہ بچوں کے ذہنی معیار کو بڑھانے کے لیے اس بار پیپر پیٹرن کو تبدیل کیا گیا تاہم بچوں کے دوبارہ ٹیسٹ کے مطالبے کو وہ کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں نظر آتے، اب موجودہ صورتحال یہ ہوچکی کہ ایک طرف تو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو بطور چیف گیسٹ بلائی گئی تقریب میں آج فیڈرل بورڈ انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان کرے گا جبکہ دوسری جانب سٹوڈنٹس ڈی چوک میں سراپا احتجاج ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ سٹوڈنٹس کے معاملات کو کس حد تک مانا جاتا ہے یا آنکھوں میں ڈاکٹر بننے کے خواب لیے بچے اور ان کے بہتر مستقل کے خواہشمند والدین مایوس واپس لوٹنے ہیں

Comments

Popular posts from this blog

امتحانات ہونگے یا نہیں، این سی او سی اجلاس میں کیا فیصلہ ہوگا؟ سٹوڈنٹس کے تمام سوالات کے جواب

تعلیمی انقلاب یا تعلیمی بحران؟ پنجاب بورڈز کے خودکشی کرنے والے دو سٹوڈنٹس کا معصومانہ سوال

کھیلوں کے میدان سفارتی تعلقات میں بہتری کا ذریعہ